کراچی میں جمعے کی شب انتقال کر جانے والے فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی کو کراچی میں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے، جہاں ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے ان کے جسدِ خاکی کو لحد میں اتارا۔
فیصل ایدھی نے جمعے کو بتایا تھا کہ عبدالستار ایدھی نے 25 سال قبل ایدھی ویلج میں اپنی قبر تیار کی تھی۔
اس سے قبل عبدالستار ایدھی کی نمازِ جنازہ کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں ادا کی گئی جس میں اعلیٰ شخصیات کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
عبدالستار ایدھی گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے اور طویل علالت کے بعد جمعے کی شب 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔
٭ ایدھی کا انتقال: ایک روزہ سوگ، جنازہ سرکاری سطح پر
٭ ’دو فقیر مل گئے تو خدا نے بادشاہ بنا دیا‘
٭ ایدھی نے بڑی مشکل میں ڈال دیا
٭ عبدالستار ایدھی کی زندگی تصاویر میںان کی وفات پر سنیچر کو ملک بھر میں سوگ منایا جا رہا ہے اور انھیں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا جائے گا۔
عبدالستار ایدھی کے جسد خاکی کو سنیچر کی صبح سرد خانے سے میٹھا در میں واقع اُن کی رہائش گاہ منتقل کیا گیا جہاں غسل کے بعد قومی پرچم میں لپٹی ان کی میّت توپ گاڑی پر رکھ کر نیشنل سٹیڈیم لے جائی گئی۔
نمازِ جنازہ کے بعد پاکستانی فوج کے دستے نے ایدھی کو گارڈ آف آنر پیش کیا جبکہ ان کی میت کو 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔
بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے صدرِ پاکستان ممنون حسین، مسلح افواج کے سربراہان، اعلیٰ سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں کے رہنما نیشنل سٹیڈیم پہنچے جہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے
۔نامہ نگار کا کہنا ہے کہ عوام کی بہت بڑی تعداد بھی جنازے میں شریک ہوئی اور نماز سے قبل شہریوں کے لیے مخصوص دروازوں پر طویل قطاریں دیکھی جا سکتی تھیں۔ پاکستانی بحریہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایدھی کا جنازہ بحریہ کے خصوصی دستے نے نیشنل سٹیڈیم سے ایدھی ولیج منتقل کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق نمازِ جنازہ سے قبل علاقے کی سکیورٹی فوج اور رینجرز نے سنبھال رکھی تھی جنھیں قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد بھی حاصل تھی۔ نامہ نگار کے مطابق رینجرز اور سکیورٹی حکام سٹیڈیم میں داخل ہونے والے ہر فرد کی جامہ تلاشی لیتے رہے جبکہ کمانڈوز بھی تعینات کیے گئے تھے۔ عبدالستار ایدھی کے صاحب زادے فیصل ایدھی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی تھی کہ عبدالستار ایدھی کے جنازے کے لیے سڑکیں بند نہ کی جائیں۔ |
Labels: