ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ناکام ہونے پر پاکستان میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے بھی ترک صدر رجب طیب اردوغان کو مبارک باد دی ہے لیکن جماعت اسلامی نے اس کا مظاہرہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سڑکوں پر بھی کیا ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر جماعت اسلامی کی جانب سے ترک عوام اور صدر اردوغان کے ساتھ اظہار یکہجتی کے لیے سرخ بینر لگائے گئے ہیں اور ترکی کے قومی پرچم نما بینروں پر تحریر ہے کہ ترک عوام نے اسلام دشمن لبرل امریکی لابی کو شکست دے دی ہے۔ ٭ترکی: ناکام بغاوت کے بعد پولیس میں ’صفائی‘ جاری ٭ ’فوج آئے تو مٹھائیاں بنٹیں گی، لوگ جشن منائیں گے‘ ان بینروں سے قبل کراچی اور حیدرآباد سمیت کئی شہروں میں اردوغان حکومت محفوظ رہنے کی خوشی میں جماعت اسلامی کی جانب سے مٹھائی تقسیم کی گئی اور ریلیاں بھی نکالی گئی تھیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ جمہوریت کی بقا کے لیے اتنی بڑی قربانی شاید ہی کسی ملک نے دی ہے جو ترکی میں دی گئی۔ ’

جہاں فوج اقتدار پر قابض ہوگئی ہو، سڑکوں پر ٹینک موجود ہوں، نئی کابینہ کا اعلان ہو چکا ہو وہاں سیاسی قیادت واپس پہنچ گئی اور عوام نے اپنی تاریخی مزاحمت سے اس پوری بغاوت کو کچل دیا، یہ جمہوریت کی بڑی فتح ہے۔‘ اس سے قبل جماعت کی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسی دینے کے خلاف اور کشمیر میں مسلمانوں پر مبینہ مظالم کے خلاف مہم جاری تھی۔جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ اردوغان نے 12 سال عوام کی خدمت کی، اس سے قبل ترکی میں بھی بدعنوانی عام تھی اس دور سے پہلے نجم الدین اربکان نکلا اور ا س کے بعد طیب اردوغان آگے آئے اور ملک کو کرپشن سے پاک کیا اور ترقی کی۔ ’ہم ایک ایسے آدمی اور ایسی قوم کو جس کی ایک تاریخ ہے، اس نے اپنی جمہوریت کے لیے اتنا بڑا کام کیا ہے، اس سے کیوں نہ اظہار یکجہتی کریں اور اس کو رول ماڈل بنائیں، تاکہ عوام بدعنوانی سے پاک ملکی ترقی اور جو انسانی قدریں ہیں ان کی بحالی کے لیے کردار ادا کریں اور قربانیاں دیں۔‘ نوجوان تجزیہ نگار سرتاج خان کا کہنا ہے کہ ’جماعت اسلامی اور اردوغان میں اخوان مسلمین کا نظریاتی تعلق ہے، جس میں اردوغان کے علاوہ پاکستان، انڈیا، افغانستان، مصر، بنگلہ دیش شامل ہیں۔ فی زمانہ بنگلہ دیش اور مصر میں اس پر برا وقت آیا ہوا ہے اور وہاں اس کے رہنماؤں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔‘ جامعہ کراچی کے پاکستان سٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا ترکی سے نظریاتی تعلق ہے۔ طیب اردوغان کے سیاسی سرپرست اربکان جماعت اسلامی کے ہم خیال تھے اور ان کے آپس میں بہت زیادہ روابط بھی رہے اور جب سے اردوغان اقتدار میں ہیں، جماعت اسلامی بحثیت مجموعی ان کے پالیسیوں کی حمایت کرتی آئی ہے کیونکہ اردوغان اور ان کے جماعت کا بھی دائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ ہے۔برصغیر کے مسلمانوں کا ترک عوام کے ساتھ پرانا تعلق رہا ہے، سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے خلاف یہاں اسلامی جماعتوں نے ایک بڑی تحریک چلائی تھی جس کو مہاتما گاندھی کی بھی حمایت حاصل رہی۔ جماعت اسلامی پر پاکستان میں فوج کی حمایت اور سیاسی معاونت کے بھی الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر جعفر کا کہنا ہے کہ بنیاد پرست جماعتوں کا فوج کے حوالے سے کوئی اصولی موقف نہیں ہے بلکہ ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ فوج کی سربراہی کرنے والا جرنیل ان کا بندہ ہے کہ نہیں۔ انھوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں جماعت کا جو لٹریچر شائع ہوتا تھا اس میں کہا جا رہا تھا کہ اسلامی نظام لانے کے لیے جمہوریت ایک طریقہ ہے اور اس کے علاوہ دوسرے طریقے بھی ہو سکتے ہیں یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر ہمارا ہم خیال جرنیل اقتدار میں آگیا ہے تو ہمیں اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ کہانی کو شیئر کریں شیئرنگ کے بارے میں
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا میں حکام کا کہنا ہے کہ طالبان مخالف امن لشکر کی گاڑی پر ہونے والے ایک بم دھماکے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ پیر کی شام دیر بالا کے علاقے ڈوگ درہ میں تھانہ شرینگل کی حدود میں پیش آیا۔ تھانہ شرینگل کے ایک اہلکار گل حمید نے بی بی سی کو بتایا کہ امن لشکر کے افراد کسی جرگہ میں شرکت کر کے واپس آرہے تھے کہ ان کی پک آپ گاڑی کو سڑک کے کنارے ایک ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ دھماکے میں کم سے کم سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ پولیس اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد گاڑی نیچے ایک کھائی میں جاگری جہاں پولیس پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دیر بالا کے ضلعی ناظم صاحبزادہ فصیع اللہ نے بتایا کہ مرنے والوں میں ڈوگ درہ امن لشکر کے رہنما اور ویلج کونسل چیئرمین ملک خان محمد بھی شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں امن لشکر کے علاوہ علاقے کے دیگر مقامی مشران بھی شامل ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ گاڑی میں کتنے افراد سوار تھے۔ میڈیا کے نمائندوں کو بھیجی گئی ایک ای میل کے ذریعے تحریکِ طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ خیال رہے کہ دیر بالا کے علاقے ڈوگ درہ میں اس سے قبل بھی طالبان مخالف امن لشکر کے رضاکاروں پر متعدد مرتبہ حملے ہوچکے ہیں جس میں کئی افراد مارے جاچکے ہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ ڈوگ درہ ماضی میں شدت پسندوں کا گڑھ رہا ہے، تاہم سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کے بعد یہ علاقہ عسکریت پسندوں سے صاف کرایا گیا تھا۔
پنجاب پولیس نے سوشل میڈیا سلیبرٹی قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کی دفعہ بھی شامل کر لی ہے جس کے تحت مدعی ملزمان کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ ریجنل پولیس افسر ملتان سلطان اعظم تیموری نے بی بی سی کو بتایا کہ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 311 سی کو شامل کیا گیا ہے جو غیرت کے نام پر قتل کرنے سے متعلق ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس مقدمے سے متعلق عدالت ہی میں فیصلہ ہو گا اور مدعی مقدمہ اس میں ملوث ملزمان کو اپنے طور پر معاف نہیں کر سکے گا۔ ٭ قندیل بلوچ کے قتل پر پنجاب اسمبلی میں بحث کا مطالبہ ٭ ’وہ قاتل بھائی سمیت سب کی کفالت کرتی تھی‘ اُنھوں نے کہا کہ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں مفتی عبدالقوی کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا، اس کے علاوہ دیگر افراد بھی شامل تفتیش کیے جائیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ قندیل بلوچ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں مفتی عبدالقوی کے ساتھ ٹاک شوز بھی کیے تھے جس سے تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن دو افراد کو بھی شاملِ تفتیش کیا گیا ہے جو وقوعے کے بعد ملزم کو ڈیرہ غازی خان لے گئے تھے۔ ڈی آئی جی سلطان اعظم تیموری کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ حقائق اور محرکات کو سامنے لایا جا سکے۔ اُنھوں نے کہا کہ مقتولہ کے زیر استعمال موبائل کا ڈیٹا بھی حاصل کر لیا گیا ہے جس کے بعد اس مقدمے کی تفتیش کا دائرہ کار بڑھا دیا گیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے ملزم وسیم نے مجسریٹ کے سامنے اقبالی بیان دیا ہے جس میں اُنھوں نے قندیل بلوچ کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔ ریجنل پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ملزم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ قندیل بلوچ کو قتل کرنے کے لیے کسی نے اُسے نہیں اُکسایا۔ اُنھوں نے کہا کہ ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیا گیا ہے کیونکہ قندیل بلوچ کے چہرے پر ناخنوں کے نشانات ہیں، اور اب ملزم کے ڈی این اے کا اُن ناخنوں کے ساتھ تقابل کیا جائے گا تاکہ پتہ چل سکے کہ قتل کی اس واردات میں کوئی دوسرا تو ملوث نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ قندیل بلوچ کے قتل میں دو محرکات ہیں۔ ایک کا تو ملزم نے اعتراف بھی کیا ہے کہ اس نے غیرت کے نام پر قتل کیا ہے اور دوسرا محرک پیسوں کا تھا۔ سلطان اعظم تیموری کا کہنا تھا کہ مقتولہ جو بھی پیسے کما کر لاتی تھی وہ اپنے والدین کو دیتی تھی جس کا ملزم کو رنج تھا کہ وہ اسے کیوں پیسے نہیں دیتی۔ اُنھوں نے کہا کہ قندیل بلوچ کے چھ بھائی ہیں جن میں سے تین سعودی عرب میں، ایک فوج میں، اور دو پاکستان ہی میں محنت مزوری کرتے ہیں۔ ڈی آئی جی کا کہنا ہے کہ ملزم وسیم واردات کے وقت بھی اپنے بھائیوں سے رابطے میں رہا۔ آُنھوں نے کہا کہ ملزم وسیم سے تفتیش مکمل ہو چکی ہے تاہم اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا فیصلہ اگلے ایک دو روز میں کر لیا جائے گا۔
جرمنی میں حکام کا کہنا ہے کہ ٹرین میں کلہاڑی اور چاقو سے حملہ کرنے والے افغان نوجوان پناہ گزین کے کمرے سے شدت پسندتنظیم دولت اسلامیہ کا ہاتھ سے پینٹ کیا ہوا جھنڈا ملا ہے۔ 17 سالہ نوجوان نے جنوبی جرمنی کی ریاست بویریا کے شہر ویورسبرگ میں ایک ٹرین میں یہ حملہ پیر کی شام کو کیا۔ حملے میں ہانگ کانگ کے چار افراد زخمی ہو گئے ہیں جن میں سے تین افراد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ بعد میں پولیس نے حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ خیال رہے کہ یہ حملہ فرانس کے شہر نیس میں ہونے والے حملے کے چند دنوں بعد ہوا ہے۔ بویریا ریاست کے وزیر داخلہ یواخیم ہرمان نے جرمن ٹی کو بتایا کہ اوشینفرٹ میں اس نوجوان کے کمرے میں سامان کے درمیان سے یہ جھنڈا برآمد کیا گیا ہے۔ ابتدائی اطلاعات میں آیا تھا کہ 20 افراد زخمی ہوئے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ 14 افراد صدمے میں ہیں اور ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔

ویورسبرگ اور اوشینفرٹ کے درمیان ٹرین سروس بند کر دی گئی ہے۔ بویریا کے وزیرِ داخلہ یواخیم ہرمان نے بتایا کہ حملہ آور ایک 17 سالہ افغان پناہ گزین تھا جو قریبی قصبے اوشینفرٹ میں مقیم تھا۔انھوں نے سرکاری نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بتایا کہ بظاہر یہ لڑکا کسی بڑے رشتہ دار کے بغیر جرمنی آیا تھا۔ اس نوجوان نے گذشتہ سال جرمنی میں پناہ کی عرضی داخل کی تھی اور دعوی کیا تھا کہ وہ کسی کے ساتھ نہیں جس کے بعد کمیپ سے اسے ایک دوسرے خاندان کے ساتھ منتقل کر دیا گیا تھا۔ گذشتہ سال جرمنی میں دس لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں کا رجسٹریشن کیا گیا جن میں ڈیڑھ لاکھ افغان شامل ہیں۔ جرمن میڈیا میں آنے والی بعض اطلاعات کے مطابق حملہ آور نے حملے کےدوران اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یواخیم ہرمان نے کہا کہ حکام اس بات کی تفتیش کر رہے ہیں کہ آیا واقعی ایسا ہوا تھا یا نہیں۔ یہ واقعہ مقامی وقت کے مطابق رات سوا نو بجے ٹرین میں پیش آیا۔ پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ٹرین کے ذریعے ویورسبرگ پہنچنے کے بعد حملہ آور نے مسافروں پر کلہاڑی اور چاقو سے حملہ شروع کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لوگوں کو زخمی کرنے کے بعد حملہ آور ٹرین سے اتر کر بھاگ کھڑا ہوا لیکن پولیس اہلکاروں نے اس کا پیچھا کرتے ہوئے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ حملے کے محرکات کا تاحال علم نہیں ہو سکا۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ان کے تمام اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے منگل کو اس مقدمے کی سماعت کی۔ ٭مشرف بنو گے یا ایان علی ٭ مشرف کو باہر کیوں جانے دیا گیا؟ سماعت کے بعد عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ملزم پرویز مشرف کی پاکستان میں جتنی بھی جائیداد ہے اُسے ضبط کر لیا جائے اور اس ضمن میں ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے کلکٹر اور ڈپٹی کلکٹر متعلقہ سیشن جج صاحبان کے پاس اس کی تفصیلات جمع کروائیں۔ عدالت نے سٹیٹ بینک کو بھی حکم دیا ہے کہ ملزم کے پاکستان کے مختلف بینکوں میں موجود اکاؤنٹس کو منجمد کر دیا جائے اور اس بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ آئین شکنی کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو پہلے ہی اشتہاری قرار دے چکی ہے۔ حکومت نے عدالتی حکم پر پرویز مشرف کی پاکستان میں جائیداد سے متعلق تفصیلات جمع کروا دی ہیں۔ تاہم اس بارے میں ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت نے اُن کے موکل کی جائیداد کی تفصیلات سنہ 2008 میں الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی اثاثوں کی تفصیلات سے حاصل کی ہیں جبکہ اس کے بعد سابق آرمی چیف نے اپنی تمام تر جائیداد اپنی بیوی اور بیٹی کو تحفتاً دے دی ہے۔

ملزم کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ وہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ جو جائیداد کسی کو گفٹ کر دی گئی ہو تو اسے کیسے ضبط کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے ملزم کی عدم موجودگی میں اس مقدمے کی کارروائی جاری رکھنے سے متعلق استغاثہ کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جب تک ملزم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا یا پرویز مشرف خود کو قانون کے سامنے پیش نہیں کرتے اس وقت تک اس مقدمےکی کارروائی کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ اس مقدمے کے سرکاری وکیل اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم اس وقت دبئی میں ہے اور اگر عدالت چاہے تو ملزم کا بیان انٹرنیٹ کے ذریعے ریکارڈ کروا سکتی ہے جس پر بینچ کے سربراہ مظہر عالم میاں خیل کا کہنا تھا کہ ملزم کا عدالت میں پیش ہونا ضروری ہے۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد 342 کے تحت اس کا بیان ریکارڈ کرنا استغاثہ کی ذمہ داری نہیں ہے جس میں بینچ میں شامل جسٹس یاور علی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ وزارت داخلہ نے پہلے خود ہی ملزم پرویز مشرف کو باہر جانے کی اجازت دی اب وہ کہہ رہے ہیں کہ سکائپ کے ذریعے ملزم کا بیان ریکارڈ کیا جائے۔ عدالت نے اس مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ ’اگر عوام مطالبہ کرتے ہیں‘ تو وہ سزائے موت کی بحالی کے لیے تیار ہیں۔ ترک صدر استنبول میں اپنی رہائش گاہ کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کر رہے تھے جہاں سزائے موت کی دوبارہ بحالی کے لیے نعرہ بازی کی جارہی تھی۔ دوسری جانب یورپی یونین کے حکام نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے ملک میں سزائے موت کو بحال کی تو اس کے یورپی یونین میں شمولیت کا راستہ بند ہوسکتا ہے۔ رجب طیب اردوغان بغاوت کی کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں اور سرکاری عملے پر ہونے والے کریک ڈاؤن کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ترکی میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور فوجی افسران اور ججوں کو برطرف یا حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ترکی کے مغربی اتحادیوں نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے اور صدر اردوغان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دیکھ بھال کر کوئی قدم اٹھائیں۔تاہم منگل کو اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر اردوغان کا کہنا ہے کہ ترکی ایک ’جمہوری ریاست ہے جہاں قانون کی بالادستی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تھا اگر ترک عوام یہ مطالبہ کرتے ہیں اور پارلیمان اس قانون سازی کی منظوری دے دیتی ہے تو وہ سزائے موت بحال کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ عوام کے مطالبے کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘ ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’آج کیا امریکہ میں سزائے موت نہیں ہے؟ روس میں؟ چین میں؟ دنیا بھر کے ممالک میں؟ صرف یورپی یونین کے ممالک میں سزائے موت نہیں ہے۔‘ خیال رہے کہ ترکی نے سنہ 2004 میں یورپی یونین کا رکن بننے کی کوششوں کے سلسلے میں ملک میں سزائے موت کا قانون ختم کر دیا تھا۔واضح رہے کہ ترک حکام نے تقریباً آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو مبینہ طور پر گذشتہ ہفتے ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا ہے جبکہ عدلیہ اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد پہلے ہی حراست میں لیے جا چکے ہیں جن میں دو ہزار سے زیادہ جج بھی شامل ہیں۔ زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں۔ صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد بھی زیرِ حراست لوگوں میں شامل ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ کے مطابق گذشتہ ماہ اغوا کیے جانے والے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس شاہ کو ٹانک سے بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے اس بات کی تصدیق پیر کو رات گئے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کی۔ ٭ بیرسٹر اویس شاہ کی بازیابی (تصاویر) ٭ ’چیف جسٹس کے بیٹے کا اغوا سزاؤں کا ردعمل ہو سکتا ہے‘ بعدازاں منگل کی صبح ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اویس شاہ کو فوج کی ایک کارروائی کے دوران خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک میں اغوا کاروں کے قبضے سے چھڑایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی میں تین اغوا کار بھی مارے گئے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ اویس شاہ کی ٹانک کے علاقے میں موجودگی کے تکنیکی شواہد کئی دن سے مل رہے تھے اور پیر کی شب جب مفتی محمود چوک پر قائم ناکے پر فوج کے جوانوں نے اغواکاروں کی گاڑی روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے نشانہ باز نے ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کیا تو اس میں سے مزید دو اغوکاروں نے بھی اتر کے فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم انھیں بھی ہلاک کر دیا گیا۔ لیفٹینٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ جب اس گاڑی کی تلاشی لی گئی تو اس میں مغوی اویس شاہ کو منہ پر ٹیپ لگا کر برقع پہنا کر بٹھایا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اغوا کار تحریکِ طالبان پاکستان کے ایک دھڑے سے تعلق رکھتے تھے جو القاعدہ سے بھی منسلک تھے اور انھیں مغربی سرحد سے افغانستان لے جانا چاہتے تھے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے تصدیق کی کہ اغواکاروں نے اویس شاہ کے اغوا کے بعد ان کے اہلِ خانہ سے رابطہ بھی کیا تھا تاہم انھوں نے ان کے مطالبات کے بارے میں تفصیل فراہم نہیں کی۔ اویس شاہ کو بازیابی کے بعد پہلے فوجی کیمپ لے جایا گیا اور پھر وہاں سے خصوصی طیارے کے ذریعے کراچی پہنچا دیا گیا ہے۔

کراچی سے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق بیٹے کی بازیابی کے بعد جسٹس سجاد علی شاہ نے کراچی میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیر کی شب رات تین بجے آرمی چیف نے انھیں فون کر کے بتایا کہ اویس شاہ کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف سے بات کے بعد ان کی اویس شاہ سے بات کروائی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اویس شاہ کی بازیابی حکومت کی بھرپور کوششوں کا نتیجہ ہے اور ’پاک فوج حکومت کا ہی حصہ ہے، الگ نہیں ہے۔‘ سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا بالکل ٹھیک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا انھیں نہیں معلوم کہ ان کے بیٹے کو کس نے اغوا کیا تھا۔ ٹی وی چینلز پر جسٹس سجاد علی شاہ کی رہائش گاہ کے باہر سکیورٹی اہلکاروں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا رش دیکھا جا سکتا ہے جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ اور ان کے بیٹے سے ملاقات کے لیے آنے والے افراد کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔اویس شاہ ایڈووکیٹ گذشتہ ماہ کراچی کے متمول علاقے کلفٹن میں واقع ایک سپر سٹور کے باہر سے غائب ہوگئے تھے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف نے اویس شاہ کی بازیابی پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو مبارک باد دی ہے اور اویس شاہ کی بازبابی پر سکیورٹی فورسز کے کردار کو قابل تحسین قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ شدت پسندوں نے پانچ سال قبل سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کو جبکہ تین سال قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کو بھی پنجاب سے اغوا کیا تھا اور یہ دونوں رواں برس ہی بازیاب ہوئے ہیں۔
Powered by Blogger.